Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

شرابی بیٹا اور ماں کی خودکشی (شمائلہ ثناءاللہ،گوجرانوالہ)

ماہنامہ عبقری - مئی 2010ء

بیٹا ماں کو گالی دینے میں بھی شرم محسوس نہ کرتا تھا۔ ایک دن ماں نے بدظن ہوکر اپنے اوپر تیل چھڑک کر خود کو جلا ڈالا۔ تین دن ہسپتال رہنے کے بعد وہ اپنے اللہ سے جاملی جو انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے تقدیریں لکھ دیتا ہے۔ شاید اس بیچاری کی تقدیر میں سکھ تھا ہی نہیں ہم کو اکثر ایسی تحریروں سے واسطہ پڑتا ہے جن میں والدین کے حقوق اولاد کے حقوق کا ذکر ہوتا ہے ہم ان کو معمول کی چیز سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں لیکن میرے عزیزو حقوق کی اہمیت کو سمجھ لینا اور بات ہے اور ان پر عمل کرنا اور بات ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ یہ بات ہم پر موقوف ہے کہ ہم کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں جیسا راستہ اختیار کریں گے ویسا ہی پھل پائیں گے۔ یہ قدرت کا اصول ہے حقوق کبھی یکطرفہ نہیں ہوتے، حقوق کا فرائض کے ساتھ چولی دامن کا تعلق ہے یہ تو پرلے درجے کی خودغرضی ہوگی کہ کسی ہستی سے فیض تو پالیا جائے اور اس کے بدلے میں نہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے اور نہ ہی اس سے کوئی نیکی کی جائے۔ لیکن افسوس سے یہ بات کہنا پڑرہی ہے کہ آج کے پرتعیش زمانہ نے ہمیں اپنے ان محسنوں کی قدر بھلا دی جنہوں نے ہمیں اس وقت سنبھالا جب ہم بے بس اور محتاج تھے۔ والدین ہی ایسی ہستی ہیں جو ہماری پرورش اور خدمت کی خاطر اپنے آرام اور سکون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لمحہ بہ لمحہ نومولود کی نگہداشت پر نثار کردیتے ہیں وہ خود تکلیف اٹھاتے ہیں مگر بچے کو کسی قسم کی آنچ نہیں پہنچنے دیتے خالق کائنات نے ان کے دل میں بے لوث محبت بھر دی ہوتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ آج کے بہت سے گھرانوں کے افراد ایسے ہیں جو اپنے ان محسنوں کی قدر نہیں کرتے اور اس ناقدری کا نقصان آخرت کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں اٹھاتے ہیں۔ نمونے کیلئے ایک چشم دید واقعہ پیش کرتی ہوں۔ ہمارے محلے میں ایک لڑکا رہتا تھا۔ پانچویں تک ہم اکٹھے پڑھتے رہے جس سکول میں ہم نے تعلیم حاصل کی ہمارے محلے ہی میں واقع تھا۔ پانچویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے آگے پڑھنے کی بجائے آوارہ گردی کو ترجیح دی۔ آہستہ آہستہ وہ برے لڑکوں سے دوستیاں بڑھانے لگا۔ وہ دو بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ یہ سب سے بڑا تھا اس سے چھوٹا ایک بھائی اور پھر دو بہنیں تھیں۔ باپ حد سے زیادہ نشے کا عادی تھا۔ باپ کے دیکھا دیکھی بیٹے نے بھی نشہ، چوری، ڈاکے میں مہارت حاصل کرلی۔ گھر میں اکثر باپ بیٹے کی وجہ سے جھگڑا رہتا تھا۔ ماں بیٹے کو بہت سمجھاتی لیکن بیٹا ماں کو بھی گالی دینے میں شرم محسوس نہ کرتا تھا شائد اس بیچاری کی قسمت میں خالق کائنات نے سکھ کا سانس لکھا ہی نہ تھا۔ شروع میں خاوند کی کڑوی کسیلی باتیں اور حرکات برداشت کرتی رہی ماں صرف اس امید پر زندہ تھی کہ بیٹا بڑا ہوکر اس کے آنگن میں خوشیوں کی بہاریں بکھیرے گا لیکن اسے کیا معلوم تھا جس بچے کو اس نے دوسروں کی سختیاں برداشت کرکے محنت کا سبق دیا اور ہمت و صبر سے خود مصائب کا مقابلہ کرکے اس کو بڑا کیا کہ یہ بھی بڑا ہوکر باپ کی طرح شراب کی محفلیں سجانے لگے گا۔ یقینا اس کا دل بھی خون کے آنسو رویا ہوگا آخر ایک دن ایسا آیا بیٹا شراب کے نشے میں مست تھا ماں نے بیٹے کو سمجھایا بیٹے نے ماں کو انتہائی غلیظ گالیاں دینا شروع کردیں سخت برا بھلا کہتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔ ماں کی مامتا اس غم کو برداشت نہ کرسکی ماں نے اپنے اوپر تیل چھڑک کراپنے آپ کو جلاڈالا۔ تین دن ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں سسکنے اور تڑپنے کے بعدحرام موت مرنے کے بعد اُس خالق حقیقی سے جاملی جس نے انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے اس کی تقدیرلکھ دی ہے۔ ماں کی میت پر بیٹے نے خوب آنسو بہائے۔ اسے ایک لحظہ ماں کی مامتا نے بے تاب کیا۔ لوگ کہنے لگے کہ شاید اب اس کا بیٹا سنبھل جائے گا لیکن نہیں بیٹے کی عادتوں میں انیس بیس کا بھی فرق نہ آیا۔ بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ باپ نے اب کوئی ہفتہ خالی نہ جانے دیا کہ جب شراب نہ پی ہو اور گندی گالیاں بکتا ہوا ہر گلی سے نہ گزرتا ہو۔ محلے والے سخت تنگ تھے چونکہ یہ دونوں اونچے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے محلے والوں نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ بیٹا بھی جب نشہ کرتا گھر جاتا تو چھوٹے بہن بھائیوں کو بے دردی سے مارتا پیٹتا۔ ان معصوم بچوں پر ترس کھاکر اس کے بھائی کو ماموں لے گئے اور چھوٹی بہنوں کو نانی نے اپنے پاس رکھ لیا۔ اب پورے گھر میں باپ بیٹا تنہا رہتے تھے۔ ماں کے مرنے کے بعد بیٹا راتوں کو گلی کوچوں میں دندناتا پھرتا اور گن پوائنٹ پر لوگوں کو لوٹتا۔ ماں کے بعد اسے اور آزادی مل گئی۔ باپ اپنے نشے میں مست رہتا۔ ایک سال کے عرصے میں بیٹا تین بار جیل کاٹ چکا تھا۔ پھر ایک دن جانے کس مظلوم کی آہ لگی۔ لڑکے نے رات کو شراب زیادہ پی لی اور سوگیا۔ اس دنیا سے اس کا تعلق ٹوٹ چکا تھا۔ سانسیں پوری ہوگئی تھیں۔ دن کا سورج طلوع ہوتے دیکھنا اس کے نصیب میں نہ تھا اس کی روح پرواز کرچکی تھی۔ یہ زیادہ پرانا واقعہ، قصہ یا کہانی نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار انسان ایسے ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ کاش کہ وہ مسلمان (لفظ) کے معنی کو صحیح طرح سمجھ سکیں۔ انسان اپنی ہی مستیوں میں نہ جانے کیا کیا سوچے بیٹھا ہوتا ہے، ایسا کروں گا تو نفع پاﺅں گا یہ گھر بیچوں گا وہاں بنگلہ خریدوں گا۔ انسان اس فانی دنیا کو رنگین بنانے میں لگارہتا ہے۔ اسے یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ اس کے کفن کا کپڑا بازار میں آگیا ہوتا ہے۔ ہم لوگ آخرت سے نہیں ڈرتے اور نہ اپنے اعمال سے ڈرتے ہیں کہ کیا منہ لے کر اللہ کے دربار میں جائیں گے کہ دنیا میں کیا کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے اور کیا کما کر لے گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نوجوان نسل کو صحیح راستوں پر چلائے۔ نیکیوں کا ذخیرہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔ (آمین)
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 470 reviews.